Sochte Hain (2nd Edition) | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

SOCHTE HAIN (2ND EDITION) سوچتے ہیں

Inside the book
SOCHTE HAIN (2ND EDITION)

PKR:   1,250/- 750/-

Author: HUSNAIN JAMAL
Pages: 368
ISBN: 978-969-662-439-4
Categories: SHORT STORIES COLUMNS ESSAYS
Publisher: Book Corner

بہت برس پہلے اتفاق سے ایک نثر پارے پر نظر پڑی اور ٹھہر گئی۔ کسی نے اپنے استاد اور نابغہ روزگار کہانی کار احمد ندیم تونسوی کو ہدیہ تبریک پیش کیا تھا مگر مدح میں عجز بیان کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔ جملے میں ایسی سلاست اور لفظ کا ایسا موزوں انتخاب کہ اسے بھول جانا ممکن نہیں تھا۔ تعجب رہا کہ یہ کون گدڑی کا لعل ہے۔ کچھ عرصے بعد حسنین جمال سے ربط ہوا تو ندیم تونسوی صاحب والی تحریر کے مصنف سے بھی تعارف ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ تحریر ہی نہیں، صاحبِ تحریر بھی نستعلیق ہیں، شائستہ لب و لہجہ، آداب اطوار میں وکٹورین عہد کا کوئی بھٹکا ہوا سفارت کار، جامہ زیب، مزاج میں شگفتگی اور علمی انکسار کا نادر امتزاج۔ روایت نبھانا ہوتی تو یہاں انشا اللہ خان کا ”اہل درد کو پنجابیوں نے لُوٹ لیا“ والا ٹکڑا ٹکا دیا ہوتا۔ مگر صاحب حسنین جمال خالی خولی پنجابی نہیں ہیں۔ خاک کے اس پتلے کا ایک انگ ناگ پور سے آیا ہے اور دوسری پرت پشاور کی خاک سے اٹھی ہے۔ کچھ کل پرزے ملتان کی صناعی ہیں۔ پاؤں کی گردش میں کوچہ و بازار کی صحبت بھی اٹھائی، کوہستان و صحرا میں تمیز بھی روا نہیں رکھی۔ اب آپ نے جانا کہ یہ دانہ گندم چکی کے کن پاٹوں میں پس کر سُرمۂ چشم ہوا ہے۔ جن دنوں ہماری دوستی ہوئی، برادرم حسنین جمال مشکل نگاری کا تجربہ کر رہے تھے۔ دبے دبے لفظوں میں بندہ خدا سے گزارش کی کہ نگارش کی رنگینی ابلاغ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ پھر خود ہی سوچ لیا کہ ہنر کی دیوی کو میٹھا برس لگتا ہے تو چھب گات کی داد چاہتی ہے۔ ایک مختصر سا وقفہ تھا، گزر گیا۔ پھر تو یار عزیز نے ایسے ایسے ٹکڑے نکالے کہ درویش ایک طرف، اساتذہ تک کو غبطہ ہوا۔ قلم کی تاثیر پر بھروسا بڑھا تو دقیق لغت نے ایسی سادہ بیانی شعار کی کہ محمد حسین آزاد یاد آ گئے۔ ”رنگ لایا ہے دوپٹہ ترا میلا ہو کر“ ۔
حکایت دراز ہوئی جاتی ہے مگر کیسے کہوں کہ یارِ من حسنین جمال کی کہانی ہے۔ اس دوران، ہم دونوں ”ہم سب“ پر بہت دن جزوقتی ہم کار بھی رہے۔ ”ہم سب“ کی رسائی اور امکان محدود تھے۔ حسنین جمال کے عزائم لامکاں کی خبر لاتے تھے۔ ایک روز لاہور میں جمے جمائے روزگار کا بستر لپیٹا اور اسلام آباد میں نئی ذمہ داریاں قبول کر لیں۔ ’’حوریاں رقص کناں ساغر شکرانہ زدند‘‘ کشائشِ رزق کی صورت بھی نکلی اور پڑھنے والوں کی پذیرائی ایسی کہ موجودہ نسل میں شاید ہی کسی نثر لکھنے والوں کو اس مختصر مدت میں تعداد اور تحسین کے اعتبار سے اتنے پڑھنے والے نصیب ہوئے ہوں۔ ہم دونوں بھائیوں کے صحافتی تصور میں البتہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘ والا بال آ گیا کہ حسنین جمال نے سیاست، معیشت اور تمدن جیسے موضوعات سے ہاتھ اٹھا لیا۔ زبان و بیان کی خوبیاں وہی جو ابتدا ہی سے ہویدا تھیں۔ مگر اب توسن خیال کو روزمرہ زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف موڑ دیا جو اپنی جگہ اہم تھے لیکن افتادگان خاک کی پلکوں پر گراں بار بنیادی سوالات سے گریز پائی کی چغلی کھاتے تھے۔ ’’آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم / اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ‘‘ حسنین بھائی کا یہ گمنام دوست تھامس مان کے اس قول کا قتیل ہے، In our times the destiny of man is defined in political terms۔ ایک طرف میرا ضمیر ہے دوسری طرف دوست۔ افلاطون کا معروف قول اپنی جگہ لیکن مجھے اپنے دوست کے لیے اس طرح کھڑے ہونا ہے جیسے ای ایم فاسٹر نے دوست کو تین تالیوں کا اعزاز بخشا تھا۔ حسنین جمال، ڈٹے رہو۔ وہی لکھو جو تمھیں خوشی دے۔ دوستی کی دیانت کا تقاضا تھا کہ میں اپنا اختلاف بیان کروں۔ آپ کے احترام، مرتبے اور مقام سے انکار ممکن نہیں۔ دعا ہے کہ آپ کے قلم کی رفتار میں رکاوٹ نہ آئے اور آپ کی تخلیقی صلاحیت کا سرچشمہ ہمیشہ مثبت سوچ، صاف گوئی اور انسانی ہمدردی کے موتیوں سے لبریز رہے۔

وجاہت مسعود

حسنین جمال نے بس چند ہی سالوں میں ، بلکہ کہنا چاہیے کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے مقبولیت حاصل کی ہے۔ انھوں نے غالباً لکھنا دیر سے شروع کیا مگر وہ خاصے عرصے سے ادب، تاریخ اور کلچر کا مطالعہ کررہے تھے۔ ان کی تحریروں کی خوبیاں اور خصوصیات ہی ان کی مقبولیت کے اسباب ہیں۔ وہ اپنے زمانے، اس زمانے کی روزمرہ کی سچائیوں، مسائل، عام آدمی کی عام الجھنوں، کبھی کبھی سامنے کی عام سی مگر ضروری باتوں کو اپنے انداز میں لکھتے ہیں۔ ان کا انداز یکسر غیررسمی، بات چیت کا ہے۔ جیسا کہ بلاگ کا ہونا چاہیے۔ غالب نے خط کو مکالمہ بنایا تھا۔ حسنین جمال نے بلاگ کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ وہی روزمرہ کی زبان جس میں کوڈ مکسنگ، کوڈ سوئچنگ مسلسل ہوتی رہتی ہے۔ پنجابی، اُردو، انگریزی کے الفاظ و تراکیب سلیقے سے مگر فطری انداز میں سامنے آتے ہیں۔ اس غیر رسمی انداز کی تہ میں ادب و تاریخ و معاصر عہد کی صورتِ حال کا وسیع مطالعہ جھلکتا ہے۔ طنز سے زیادہ شوخی اور مزاح سے کام لیتے ہیں۔ وہ زمانے کو ایک روشن خیال، انسان دوست، شناختوں کی سیاست سے بالاتر ادیب کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ سب انھیں معاصر غیرافسانوی ادب میں اہم بناتا ہے۔ ’’داڑھی والا‘‘ کی مانند یہ کتاب بھی بلاشبہ ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔

ناصر عباس نیّر

RELATED BOOKS