Sarkar ki rahguzar se | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

SARKAR KI RAHGUZAR SE سرکار کی رہ گزر سے

Inside the book
SARKAR KI RAHGUZAR SE

PKR:   1,500/- 900/-

Author: ZAFAR MAHMOOD
Pages: 367
ISBN: 978-969-662-475-2
Categories: MEMOIRS POLITICS
Publisher: Book Corner

ظفر محمود، کیڈٹ کالج حسن ابدال اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1976ء میں ڈی ایم جی، حال (PAS) گروپ سے سرکاری نوکری کا آغاز۔ ملازمت کے دوران1984ء میں مانچسٹر یونی ورسٹی، 1987ء میں آرتھر ڈی لٹل انسٹی ٹیوٹ،بوسٹن، 1989ء میں سٹیٹ ڈِپارٹمنٹ، واشنگٹن اور 2007ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے مزید تعلیم۔ 1992ء سے 1995ء تک استنبول میں کونسل جنرل کی ذمے داری، نوکری کے آخری دور میں چھے مختلف وفاقی وزارتوں ، ٹیکسٹائل، کامرس، پٹرولیم، کابینہ، انڈسٹری اور پانی و بجلی میں فیڈرل سیکرٹری۔ رِٹائرمنٹ کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن میں چیئرمین کی تعیناتی اور واپڈا کی سربراہی۔ کالا باغ ڈیم سے متعلق حقیقتیںاجاگر کرنے کے لیے انگریزی میں "Sifting Facts from Fiction" کے عنوان سے مختلف اخباری کالموں، بعد کو اُردو میں ’’حقیقت کیا، فسانہ کیا‘‘ کتاب کی اشاعت پر حکومتِ وقت کے سیاسی بوجھ میں اضافے کے پیشِ نظر عہدے سے ازخود مستعفی۔

ظفر محمود کے ہم عصر جانتے ہیں کہ ملازمت کے دوران وہ نہ کبھی عہدوں کے اسیر رہے، نہ ان کے بے داغ کردار پر کسی نے انگشت نمائی کی ۔ کئی بار انھیں او ایس ڈی بنایا گیا۔ بنیادی طور پر وہ ایک قلم کار ہیں۔ اِسی وقفے کے دوران قلم سے اُن کا رشتہ قائم رہا اور اُن کے افسانوں کا مجموعہ ’’دائروں کے درمیاں‘‘ بھی شائع ہوا۔ ظفر صاحب کی تحریروں کا مرکز دھرتی سے جُڑے وہ لوگ ہیں جن کے گرد بےشمار نفسی و سماجی مسائل، اعتقاد و اعتماد اور ارادت مندی کی سعادت نے دائرے کھینچ دیے ہیں۔ عدم برداشت کی دیواریں اُونچی ہوتی جا رہی ہیں۔ لکھنے والے کا قلم اِرد گرد کے ماحول سے بےنیاز نہیں رہ سکتا۔ اُن کے بہ قول شاید اُن کی تحریریں بھی بڑھتے ہوئے معاشی انحطاط سے متاثر ہوں۔

زیرِ نظر کتاب میں، قارئین کو وہ چشم کشا تجربے اور ناقابلِ فراموش مشاہدے نظر آئیں گے جن سے ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے، اقتدار کی غلام گردشوں میں اُن کا واسطہ رہا۔ بیوروکریٹ کی زندگی ایک حیرت کدے کاسفر ہوتا ہے۔ ظفرمحمود کے ساتھ اِس سفر میں قاری کی شرکت اُس کی سوچ میں نئے دریچے وا کرتے ہوئے، معاشرے کے اُن نہاں خانوں کا پتا دیتی ہے جو دیکھتی آنکھوں کو نظر نہیں آتے۔

ظفر محمود کی اقامت آج کل کراچی میں ہے۔ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ جناب شکیل عادل زادہ نے اُنھیں ہمارے ادارے سے متعارف کروایا۔ ظفر محمود صاحب کو پبلشرز سے پُرانی شکایت ہے۔ 1997ء میں چھپنے والے اپنے ناول ’’23دن‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ’’1968ء میں کیڈٹ کالج حسن ابدال سے میٹرک کرنے کے دوران میرا افسانہ اُس وقت کے ایک باوقار اور کثیر الاشاعت جریدے میں چھپا۔ اِس کا ذکر فہرستِ مضامین میں خصوصی کہانی کے طور پر کیا گیا اور پورے شمارے میں صرف اِس کے لیے رنگین صفحات مختص ہوئے۔ اِس اعزاز کے باوجود میرے نقطۂ نظر سے کوئی کمی تھی تو صرف میرے نام کی۔ جہاں میرا نام ہونا چاہیے تھا وہاں ایک کشمیری مجاہد کی ’سچی داستان‘ لکھا تھا۔ پہلی دفعہ لکھنے والے اور پڑھنے والے کے درمیان ایک اور کردار ’’چھاپنے والے‘‘ اور اِس کے کاروباری اسرارورموز کا علم ہوا۔‘‘

ہمیں خوشی ہے کہ ظفر محمود صاحب نے ہمارے ادارے کا انتخاب کیا۔ اُن کا ارادہ ہے کہ وہ بہت جلد اپنی ’آپ بیتی‘ لکھیں گے۔ یقین ہے کہ اِس خود نوشت میں نہ کم زور لمحوں کی پردہ پوشی ہو گی اور نہ سچ کے معاملے میں کوئی کفایت برتی جائے گی۔ اِس کتاب میں شامل کاٹ دار تحریروں کی طرح، اُن کی آپ بیتی بھی قارئین کو اَن دیکھے آسمانوں سے رُوشناس کرائے گی۔

RELATED BOOKS