Majmua Ismat Chughtai (Novel - Afsanay) | 3 Books Set | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

MAJMUA ISMAT CHUGHTAI (NOVEL - AFSANAY) | 3 BOOKS SET مجموعہ عصمت چغتائی (ناول، افسانے) | تین کتابیں

MAJMUA ISMAT CHUGHTAI (NOVEL - AFSANAY) | 3 BOOKS SET

PKR:   3,400/- 1,700/-

Author: ISMAT CHUGHTAI
Pages: 1304
Year: 2020
Categories: SHORT STORIES NOVEL BOOKS PACKAGES / BUNDLE OFFERS
Publisher: Book Corner

عصمت چغتائی کے ناول اور افسانوں کو غور اور توجہ سے دیکھیں تو ان تحریروں میں کہیں کہیں ان کی اپنی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ مگر ان کے افسانوں کو آپ بیتی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا مشاہدہ بہت تیز تھا۔ زندگی کے نامعلوم کتنے چھوٹے چھوٹے واقعات اور نامعلوم کتنے چھوٹے بڑے کرداروں کو انہوں نے افسانوں میں ڈھالا ہے۔ عصمت نے اپنے فلم ساز شوہر شاہد لطیف کی فلموں کے لیے بارہ کہانیاں لکھی تھیں۔ جن میں سے پانچ فلمیں انہوں نے خود بنائیں۔ ان کی سر گزشت’کاغذی ہے پیرہن‘ کے نام سے منظرعام پر آئی۔ جس کا جدید اور مکمل ایڈیشن اب بک کارنر شائع کر چکا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عصمت اپنے بولڈ افسانے ’لحاف‘ کی وجہ سے کافی بدنام ہوئیں اور اس افسانے پر عدالت میں مقدمہ بھی چلا۔ اتفاق سے منٹو کے افسانہ ’بو‘ اور عصمت کے افسانہ پر ساتھ ساتھ مقدمہ چلا تھا۔ ان کے گھر جب پولیس وارنٹ لے کر پہنچی تو گھر میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہو گئی، جس کا ذکر عصمت نے ’کاغذی ہے پیرہن‘ میں کیا ہے۔ لوگ انہیں کہتے تھے کہ معافی مانگ لو تو مقدمہ خود بخود ختم ہو جائے گا لیکن منٹو نے ان کے باغیانہ شعلوں کو ہوا دی انہوں نے کہا:

’’ارے ایک ہی تو معرکے کی چیز لکھی ہے آپ نے۔ اماں شاہد تم بھی کیا آدمی ہو۔ یار تم بھی چلنا تم نے جاڑوں کا لاہور نہیں دیکھا۔ خدا کی قسم! ہم تمہیں اپنا لاہور دکھائیں گے۔ کیا تیکھی سردی پڑتی ہے۔ تلی ہوئی مچھلی اہاہا۔ وہسکی کے ساتھ۔ آتش دان میں دہکتی ہوئی آگ جیسے عاشقوں کے دل جل رہے ہوں اور بلڈ ریڈ مالٹے۔ آہا۔ جیسے معشوق کے بوسے۔‘‘

مقدمہ ختم ہو گیا، فیصلہ عصمت چغتائی کے حق میں ہوا لیکن ’ لحاف‘ کا لیبل ان پر ساری زندگی چپکا رہا۔ وہ خود ہی کہتی ہیں:

’’لحاف کا لیبل اب بھی میری ہستی پر چپکا ہوا ہے اور جسے لوگ شہرت کہتے ہیں وہ بدنامی کی صورت میں اس افسانہ پر اتنی ملی کہ الٹی آنے لگی، ’’لحاف‘‘ میری چڑ بن گیا تھا۔ میں کچھ بھی لکھوں لحاف کی تہوں میں دب جاتا تھا۔جب میں نے ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ لکھی اور شاہد احمد دہلوی کو بھیجی تو انہوں نے محمد حسن عسکری کو پڑھنے کو دی، انہوں نے مجھے رائے دی کہ میں اپنی ناول کی ہیروئن کو لحاف زدہ بنا دوں۔ مارے غصے کے میرا خون کھول اٹھا میں نے وہ ناول واپس منگوا لیا۔‘‘

’’ٹیڑھی لکیر‘‘ کے دیباچے میں لکھتی ہیں:

’’کچھ لوگوں نے کہا کہ ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ میری آپ بیتی ہے۔ مجھے خود یہ آپ بیتی لگتی ہے۔ میں نے اس ناول کو لکھتے وقت بہت کچھ محسوس کیا ہے۔ میں نے شمن کے دل میں اترنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ آنسو بہائے ہیں اور قہقہے لگائے ہیں۔ اس کی کمزوریوں سے جل بھی اٹھی ہوں، اس کی ہمت کی داد بھی دی ہے۔ اس کی نادانیوں پر رحم بھی آیا ہے اور شرارتوں پر پیار بھی آیا ہے۔ اس کے عشق و محبت کے کارناموں پر چٹخارے بھی لیے ہیں اور حسرتوں پر دُکھ بھی ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر میں کہوں کہ یہ میری آپ بیتی ہے تو کچھ زیادہ مبالغہ تو نہیں۔
اور جگ بیتی اور آپ بیتی میں بھی تو بال برابر کا فرق ہے۔ جگ بیتی اگر اپنے آپ پر بیتی محسوس نہ کی ہو تو وہ انسان ہی کیا؟ اور بغیر پرائی زندگی کو اپنائے ہوئے کوئی کیسے لکھ سکتا ہے۔‘‘

24 اکتوبر 1991ء کو بمبئی میں عصمت چغتائی کا انتقال ہوا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کے جسد خاکی کو نذر آتش کیا گیا یہ ان کا آخری حرفِ بغاوت تھا جس کے اظہار میں وہ قطعاً نہ گھبرائیں۔

(امر شاہد)

RELATED BOOKS