Khud Se Khuda Tak (4th Edition) | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

KHUD SE KHUDA TAK (4TH EDITION) خود سے خدا تک

Inside the book
KHUD SE KHUDA TAK (4TH EDITION)

PKR:   1,400/- 840/-

Author: MUHAMMAD NASIR IFTIKHAR
Pages: 456
ISBN: 978-969-662-399-1
Categories: ISLAM CHARACTER BUILDING
Publisher: Book Corner
★★★★★
★★★★★

اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا ...

اللہ ربُّ العزت جب کسی پر مہربان ہوتو’’عطا‘‘کیا کرتا ہے۔ عطائے سلطان السلاطین ذوالجلال والاکرام بڑی بات ہے۔ عطا کردیا جانا، متلاشی عاصیوں کے لیے بڑے نصیبے کی بات ہوتی ہےکہ ریگ زاروں میں ہزارسال ایڑیاں رگڑی ہوتی ہیں۔ سیاہ ماتمی سوگوار روحیں بجھتی آنکھوں کے قدیم شکستہ زندانوں کی زنگ خوردہ سلاخوں سے نجانے کتنی صدیاں لپٹ کے روئی ہوتی ہیں کہ کوئی ہنر نہ کمال ہم جیسےشکستہ حال تھکے ہارے روندے ہوئے مسافروں میں ہواکرتا ہے۔
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ کا چمکتا سنہری کاسہ ہاتھوں میں لیےہم جیسوں کو تو بس لامتناہی تلاش کے تپتے ریگ زاروں میں جلتے، مرتے، روتے ہوئے سرگرداں چلتے ہی چلے جانا ہوتا ہے۔ کیاخبر،کون جانے کس ساعت سعید میں دربار عالیہ سے ایک بے نیاز مگر محبّت سے بھری ہوئی نظرِ کرم ہو اور سارے جہاں سے ہارے ہوئے خود اپنی ذات میں بچھی ہوئی شطرنج پر چلی جاتی چالوں سے ہرلحظہ مات کھاتے ہوئے بس کسی بھی لمحے ڈھے جانے والے گمشدہ جاں بلب مسافر کے لیے ارشاد خداوند متعال کا نزول ہو اور حکم عالی شان جاری ہو.... عطا کیا گیا۔
جسم و جاں پر کرب وبلا اور تلاش کی تیزدھار لاحاصلیت دس سال مکمل ترین کاملیت سے چھائی رہی اور پھر جب پگھلتی ہوئی آنکھیں پتھر ہوجانے کو تھیں.... جب جسم جھلستی ہوئی ریت بن کر ہوا میں بکھرنے کو ہوا تو.... تھام لیا گیا، کرم ہوگیا،جلتے ہوئے زخم ٹھنڈے کردئیے گئے، قرار دیا گیا، دم جو نکلنے کو تھا اُسے واپس پلٹ جانے کا حکم ہوا.... ذہن کے دریچے وا ہوگئے اور علم کا ایک دروازہ پوری شان اورآب وتاب سے روشن ہوگیا.... فقیر کو ، نامراد،راندہ درگاہ کو.... مارکر دوبارہ زندہ کیا اور خود سے خدا تک عطا ہوئی۔کوئی شک نہیں ولم اکن بداعائک ربِّ شقیا کا ہی سہارا تھا لیکن خود پر ایسی عطا اور ایسے ہوجانے پر ایسی حیرت طاری ہوئی وہ عجب چھایا کہ جب تک فقیر اب جیے گا حیران شُد جیے گا۔
جتنی بڑی عطا ہوتی ہے اُتنا ہی بڑا پھر امتحان بھی لگتا ہے سو ادھر بھی لگا ہوا ہے۔ کتاب لکھنے والے خوب جانتے ہیں کیسے اپنے ہی لہو کی روشنائی سے لکھوایا جاتا ہے.... مسودہ ہوا.... سکھ کا سانس راستے میں تھا خبر پہلے آپہنچی کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ مجھ جیسا پست ہمت انسان کمپوزنگ، پرنٹنگ ، ڈیزائننگ اور پبلشنگ کے جنگلوں میں کھوجائے تو باہر کیسے نکلے.... پہلی چھپائی کے تجربہ میں ہی زبردست دھوکا کھایا اور کئی مہینے چپکا ہورہامگر کب تک....
چاروناچار پھر ہمت کرنا پڑی اور اب کی بار پبلشر تو بہت ایماندار اور مخلص ملامگر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اُن کے ہاں صرف قرآن پاک کی اشاعت اور سلیبس کی کتب ہی چھپا کرتی تھیں، اس لئے وہاں کتاب کی قاری تک رسائی کاکوئی نیٹ ورک موجود نہیں تھا۔ بہرحال کتاب چھپی، اچھی چھپی اور چل گئی.... ایسی چلی کہ گماں تک نہ تھا.... اللہ سند قبولیت عطا کردے تو مخلوق کے دلوں میں محبت اُترآیا کرتی ہے۔پہلا ایڈیشن دس دن میں ہی نکل گیا....
اب اتنی زیادہ فروخت ہوتی ہوئی کتاب سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کاجن بوتل سے باہر نکل آیا اور ایسے ایسے مسائل سامنے آئے کہ چھکّے چھوٹ گئے۔ لے دے کے ڈیڑھ سال گزرا اور اس عرصے میں کتاب کے سات ایڈیشن چھپے اور ہر ایڈیشن بلامبالغہ کئی کئی بار چھپا۔ قرین قیاس ہے کہ 40,000 سے زائد کاپیاں قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں اور گُوگل پلے سٹور پر موجود پی ڈی ایف ایک لاکھ سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہوگئی ہے.... غیرقانونی پی ڈی ایف توانٹرنیٹ پر خداجانے کتنی ڈاؤن لوڈ ہوئی ہے اس کا حساب ہی ممکن نہیں....
غالب گمان ہے گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں خود سے خدا تک پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہوسکتی ہے.... شُکر تو صرف اُس ربُّ العالمین کا ہے جوجسے چاہے بے حساب عطاکرتا ہے۔
کتاب کی اس قدر پذیرائی چونکہ وہم وگمان میں نہ تھی، اس لئے کئی بار پبلشنگ وقت پر نہ ہونے یا کمپوزنگ میں بہتری کے عمل کے دوران مارکیٹ سے کئی کئی دن کتاب غائب رہنا ایک معمول بن گیا تھا۔ اس کےمستقل حل کے لیےمیدان میں نکلا تو انکشاف ہوا کہ اللہ نے پاکستان میں کتاب چھاپنے اور چھپوانے والے بڑے ’’بابوں‘‘ کا ڈیرہ اب لاہور، کراچی نہیں بلکہ ’’بُک کارنر‘‘ کے نام سےجہلم میں لگا دیا ہے۔ یاحیرت.... یہ کیا ماجرا ہے.... اللہ بادشاہ ہے، دینے پر آجائے تو جس کو چاہے بے حساب دے ڈالتا ہے لیکن اُصول اُس نے ایک یہ بھی طے کررکھا ہے کہ محنت دیکھ کر دیتا ہے، خُوب اچھی طرح تول پرکھ کر دیتا ہے، اس بات کا اندازہ بُک کارنر آمد پر اس شاندار ادارے کی باکمال اور خوبصورتی کے اعلیٰ معیار کو چھوتی ہوئی کتابیں دیکھ کر خُوب ہوگیا۔
اللہ خوش رکھے کیا ہی خوبصورت لوگ ہیں۔ گگن شاہد اور امرشاہد دونوں بھائیوں کی ایک دوسرے سے محبّت،اتحاد اور کام کی لگن دیکھ کران کے والد گرامی اور ادارے کے بانی جناب شاہد حمیدؒ کی پروقار شخصیت اور تربیت کی ستائش کرنے کو بے ساختہ جی چاہتا ہے۔ جس باپ کی اولاد اُس کے جانے کے بعد اُسے اپنا ہیرو کہتی ہو یہ اللہ کا انعام ہے جو اُس نے اپنے بندے کواُس کی اولاد کی تعلیم و تربیت پر کی گئی شب و روز محنت کی جزا کی شکل میں عطا کیا ہے۔ اور بلاشبہ یہ ایسا عظیم انعام ہے جو دُنیا و آخرت دونوں میں شاہد حمیدؒ صاحب کے لیے جاری و ساری ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ اُن کے درجات بلند فرمائے۔آمین!
’’خود سے خُدا تک‘‘ اب بُک کارنر کے پلیٹ فارم سے شائع ہورہی ہے اور ان شاء اللہ امیدِ واثق ہے کہ یہ آپ کے معیار پر پورا اُترے گی۔ آخر میں امرصاحب ،گگن صاحب سے ملنے کے بعد اور ان کی محنت، ادارے کا معیار اور قارئین کی محبّت دیکھ کر میں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ.... میری کتاب ’’خُود سے خُدا تک‘‘ کو جہاں ہونا چاہیے تھا، آخرکار وہاں پہنچا دی گئی ہے۔شکر الحمدللہ!!

اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو!

محمد ناصر افتخار

Reviews

D

Danish ramzan (Chak No 493 jb batiawala tasel shorkot jela jhang dakhana wryam wala)


H

Hafiz Muhammad Bilal (Muzaffargarh)

Must Read 📚 To Everyone


M

M Iqbal Hassan (Renala khurd)


N

Najam uz zaman (Lahore)


M

Majid (Timergara)


M

Majid (Timergara)


R

Rehman ullah (Village dagi qadeem, tehsil pabbi, district Nowshera, post office dagi banda.)


A

ALIRAZA AMANAT ALI (P/O ZAFARWAL)

THANK YOU


A

ALIRAZA AMANAT ALI (P/O ZAFARWAL)

Thank You


M

Muhammad Basit Ali Shah (Mardan)


N

Najeeb Doulatzai (killa saif Ullah , Balochistan)

Is kitab sa maray zindagi ma bahot changes aye hai . Thank you


A

Abiha Junaid (Haripur)

received book.. Alhmdulilah.
ایک خوبصورت سفر "خود سے خدا تک" کا ❤


T

Tariq Aziz Khan (Zhob)

اکثر کتابوں کے صفحے پلٹ کر سوچتا ہوں میں یوں پلٹ جائے زندگی تو کیا بات ہے


A

Ali Jan (Mandi Bahauddin)

دوستو اگر آپ نے ابھی تک یہ کتاب نہیں پڑھی تو ضرور پڑھیں۔
Highly recommend.


Z

Zeshan Ali

I have received my book, packing was extraordinary 👍, I haven't yet read it but it looks quite good specially paper quality is outstanding.
Thanks ❤️


S

Sohail Mohmand (Peshawar)

آج ہی یہ کتاب گھر لے کے آیا ہوں۔ابھی کچھ صفحات ہی پڑے ہیں اس کے۔اس کتاب کو پڑھتے وقت جو کیفیت مجھ پر طاری ہوئی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ایک ایک لفظ دماغ کی بند کھڑکیوں کو کھلتا ہے ۔۔ میرے پاس الفاظ نہیں اس کتاب کے بارے میں۔آخر میں یہی کہوں گا یہ کتاب اپنے پڑھنے والے کو اپنا مرید کر لیتی ہے ❤🌹


F

Fatima Farhan (Karachi)

Jahan tak parhi hai ,,,, Aik behtreen book ,,,Zehan ko sukoon deney wali ❣


S

Sunaina (Multan)

bohat chanting book hy jesy lafzon ka jadoo hy r bilkul ak paky muslim ny khalis muslim k ly hi likhi hy lfzon ka boht khubsorat imtizaj hy zbradat Allah inko ajer dy jitni mny prhi hy utni zbrdast hy


ا

ابو ذید سروجی

Alhamdulilah I have read it
very inspiring and attractive for those who thing their is no life without loving someone
All the concept used is verly true based on reality as depression is just an illness of mind.. Everbody needs someone who can guide them i will reccommand this book to them to have as a friend with them


S

Seemal Kiran (Lahore)

I am reading this book in these days it's awesome ❣️


F

Farhan Iqbal (Lahore)

Highly recommended to all 😇


F

Farheen Chouhan (Gojra)

This book is really really precious spcially its words are the peace of mind and emotions.The thing which i liked is that this book and its words are not concerned with any other person its just the flow of love between you and your Allah.❤️


M

Mian Ahsan Joiya (Lahore)

Worth Read ! Must try this one gift from Author, leads to bring closer to super natural power, to get rid from negativity.


W

Waheed Rabani (Mecca, Saudi Arabia)

حالیہ چند ماہ سے یہ خواہش زور پکڑ رہی تھی کہ کوئی تو ہو جو ذاتِ خودی سے ذاتِ خدا تک کے اس آسان مگر وہم و گمان میں گتھم گتھا کائنات کے اس اٹل حقیقی عنوان پر قلم اٹھاۓ اور خدا, اس کے رسول, اس کے بخشے ہوۓ علوم, سائنس اور اذہان سے نکلتے خیالات کو آپس میں یوں باہم پروۓ کہ انسان بظاہر اس پیچیدہ مگر اندرون آسان عنوان پر خود شناسی سے خدا شناسی کے مرحلہ سے کامیاب گزر جاۓ.
ایک دو بار سرسری سی جھلک اس کتاب پر بعنوان "خود سے خدا تک" پڑی تو برادرم Malik Imtaiz سے اس کا ذکر کیا ان کے توسط سے اس خوبصورت مواد کے مصنف برادرم Nasir Iftekhar کا رابطہ ملا ان سے کتاب کے متعلق اور اسی نسبت سے بات ہوئی اور کل سے اس کتاب کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا.
جیسے جیسے اس کتاب کے اوراق پلٹتا جا رہا ہوں ویسے ویسے گویا شناسائی کی پرتیں کھلتی جا رہی ہیں اور ابہام کی گرد چھٹتی جا رہی ہے.
عصرِ حاضر کے جہاں اور بہت سے غم اور رونے ہیں وہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم کتاب سے اپنا تعلق توڑ چکے اور اپنا منہ فضولیات اور لغویات کی طرف موڑ چکے اور یہیں سے پستی کی جانب تیز ترین سفر پر بخوشی اور بغیر کسی ملال کے رواں ہیں.
ہر وہ شخص جو ذاتِ الہی کی معرفت و قربت کی نیت رکھتا ہو وہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرے کہ اس میں قرآن و سائنس اور روزمرہ کی مشق کو باہم لے کر اس عقدے کو کھولنے کی کامیاب ترین کوشش کی گئ جس سے میں اور آپ چاہ کر بھی منہ نہیں پھیر سکتے کہ بالآخر ہمیں اسی کا سامنا ہونے والا ہے.
دعاء ہے کریم و رحیم رب برادرم ناصر افتخار کی اس کاوش کو ہماری اصلاح اور تجدیدِ عہد کا زریعہ بناۓ اور اللہ کریم ان کی اس کوشش کو انکی دنیوی و اخروی زندگی میں کامیابی کا سامان بناۓ.
بہت محبتیں, عزتیں اور دعائیں.
مع السلام وحید ربانی


RELATED BOOKS