Kai Chand The Sar-e Asman (3rd Edition) | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

KAI CHAND THE SAR-E ASMAN (3RD EDITION) کئی چاند تھے سر آسماں

Inside the book
KAI CHAND THE SAR-E ASMAN (3RD EDITION)

PKR:   3,000/- 1,800/-

Author: SHAMSUR RAHMAN FARUQI
Pages: 776
ISBN: 978-969-662-280-2
Categories: NOVEL
Publisher: Book Corner
★★★★★
★★★★★

’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کے مصنف شمس الرحمٰن فاروقی اُردو دنیا کی ایسی عہدساز شخصیت ہیں جن کے کام، علمی توفیقات اور تخلیقی امتیازات کا ہر سطح پراعتراف کیا گیا۔ ہندوستانی حکومت نے انہیں ’’پدم شری ‘‘ جیسا بڑا ایوارڈ دیا تو حکومت پاکستان کی طرف سے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ خلاق شاعر، مجتہد نقاد، دانشور اور شب خون جیسے رجحان ساز رسالے کے مدیر اور سب سے بڑھ کر ایسے ناول نگار جنہوں نے اپنے فن پارے کو تہذیبی مرقع بنا کر اس صنف پر امکانات کے نئے آفاق کھول دیے۔ شمس الرحمٰن فاروقی ۱۵جنوری ۱۹۳۶ء کو پرتاب گڑھ، یوپی، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ علم وفضل کی قدیم روایت اپنے بزرگوں سے وراثت میں پائی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ۱۹۵۳ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے ۔ ادبی رسالہ’’شب خون‘‘ نکالا اور کئی نسلوں کے ادیبوں کی تربیت کی۔ شمس الرحمٰن فاروقی ’’گنج سوختہ‘‘، ’’سبز اندرسبز‘‘، ’’چارسمت کا دریا‘‘، ’’آسماں محراب‘‘، ’’سوار اوردوسرے افسانے‘‘، ’’افسانے کی حمایت میں‘‘، ’’لفظ ومعنی‘‘، ’شعر شور انگیز‘‘، ’’عروض، آہنگ اور بیان‘‘، ’’اُردو غزل کے اہم موڑ‘‘، ’’ہمارے لیے منٹو صاحب‘‘، ’’قبض زماں‘‘ اور زیر نظر شاہکار ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ کے مصنف ہیں۔

----

مدتوں بعد اُردو میں ایک ایسا ناول آیا ہے جس نے ہند و پاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔ کیا اس کا مقابلہ اس ہلچل سے کیا جائے جو ’’امرائو جان ادا‘‘ نے اپنے وقت میں پیدا کی تھی؟ اور یہ ناول ایک ایسے شخص کے قلم سے ہے جسے اوّل اوّل ہم نقاد اور محقق کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے بطور ناول نگار خود کو منکشف کیا ہے اور محقق فاروقی یہاں پر ناول نگار فاروقی کو پوری پوری کمک پہنچا رہا ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ تحقیق و تنقید اور تخلیق کا کوئی ساتھ نہیں۔ لیکن زیرِ نظر ناول کو اس بات کی، جسے قاعدئہ کلی کے طور پر دیکھا گیا ہے، استثنائی صورت سمجھنا چاہیے۔ یہاں ہم تاریخ کو تخلیقی طور پر فکشن کے رُوپ میں ڈھلتے ہوئے دیکھتے ہیں لہٰذا ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کچھ الگ طرح کا ناول ہے۔ ہم اسے زوال آمادہ مغلیہ سلطنت کے آخری برسوں کی دستاویز کہہ سکتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کو جزئیات پر مکمل مہارت ہے۔ انھوں نے وزیر خانم کی زندگی کو اس درجہ لطافت، نزاکت اور تمام باریک جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک پوری تہذیب، جسے ہند مسلم تہذیب کہیے اور اس کے آخری دنوں میں اس کی چمک دمک اور برگ وبار کا پورا نقشہ آجاتا ہے.... اور وزیر خانم کا کردار بھی کیا کردار ہے کہ وہ تنہا اپنی ذات میں اس تہذیب کا مجسم وجود معلوم ہوتی ہے۔

انتظار حسین

Reviews

M

muhammad haroon qureshi (Muzaffarabad)


R

Rimzi Malik (Layyah)


ص

صالح محمد جان (مکان 44مین سٹریٹ غوری ٹاؤن فیز 1 اسلام آبادد)

ایک خوبصورت اور پر کشش ناول۔


M

MOHAMMAD ASLAM (KARACHI)

bahtreen novel


M

MOHAMMAD ASLAM (KARACHI)

bahtreen novel


J

Junaid Saqib

just Got books from book corner show room.just awesome.well packed.beautiful high quality paper.previously I purchased from them in lahore book fair.first time I ordered on line.and it's a great experience.Thank you very much.high regards and All the best.


S

Syed Ahsan Taqveem (Gujranwala)

اپنے کمرے میں کتابوں کی جو چھوٹی سی دنیا بسا رکھی ہے۔اس میں آج بفضل خدا نیا اضافہ ہو گیا ہے۔بچپن سے سر سید کے بارے میں اپنی درسی کتب میں پڑھتے آ رہے ہیں۔ان کی مسلمانوں کے لیے خدمات قابل ستاٸش ہیں۔انہی خدمات میں ایک ان کا رسالہ اسباب بغاوت ہند تھا جس کے ذریعے انہوں نےانگریز سامراج کے اندر مسلمانوں کے بارے میں پاٸی جانے والی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی تھی۔آج موقع ملا ہے کہ ان اسباب کو تفصیلاً پڑھ اور سمجھ لیا جاٸے۔امرتا پریتم کو بھی کافی عرصہ سے پڑھنا چاہ رہا تھا سو ان کی کتاب ”پنجر “منگو الی جو ایک عورت کی کہانی ہے جو تقسیم ہند کے وقت صعوبتوں کا شکار ہوٸی۔تقسیم ہند کی خون ریزی کے بارے پڑھنے کے لیے یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔قاضی عبدالستار سے نا واقف تھا۔لیکن جب ان کے شاہکار پر نظر پڑھی تو اسے خریدے بنا نہیں رہ سکا۔اس کے سرورق پر لکھا ہوا ایک جملہ اس کتاب کی شان وشوکت کی دھاک بٹھانے کے لیے کافی ہے کہ یہ اودھ کی حویلیوں کی رنگین و پرجلال داستان ہے۔ابھی ناول پڑھا تو نہیں لیکن مجھے لگتا ہےکہ ان کا پہلا ناول داراشکوہ بھی خریدنا پڑے گا۔شمس الرحمن فاروقی صاحب کے بارے میں یہ خاکسار کیا کہے۔بک کارنر والوں کا احسان ہے کہ انہوں نے فاروقی صاحب کا سارا کام دو کتابوں میں سمو دیا ہے۔انشا اللہ جلد ہی ان کا مجموعہ بھی خرید کر پڑھ ڈالوں گا۔


I

Isma Kashif (Islamabad)

ایک عرصہ ہوا کتاب پڑھنے کی وہ لذت جو مجھے حقیقی خوشی دیتی تھی میں کھو چکی تھی۔۔ اب نہ فرصت اور نہ ہی وقت کہ کتاب خریدو اور پھر اسے پڑھو۔۔ لیکن کچھ عرصے سے Book showroom میں کتب دیکھ کر میرا دل اندر ہی اندر اس لمس کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔۔ آخر کار ایک کتاب آرڈر کی اور کتاب کو مجھ تک پہنچنے میں ایک دن لگا اب کتاب کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کے پڑھنے کا لطف لے رہی ہوں۔۔ میرے خیال سے کتاب کی اپنی خوشبو بھی ہوتی ہے جو پڑھنے والے کو اپنے احساس میں جکڑے رکھتی ہے اور لفظوں کے مزے کو دوبالا کر دیتی ہے۔۔۔ اتنی خوبصورت پبلشنگ اور پیج کوالٹی Book showroom کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔ میں ممنون ہوں ان سب کا جو اس وقت میں بھی لوگوں کو کتاب سے جوڑنےکے لئے کوشاں ہیں۔۔


B

Bilal Raaid (Lahore)

Thank you Book Corner Showroom. Your publication quality is just amazing. The bar you have raised for Urdu publishers in the continent is unbeatable & matchless. Keep shining and keep producing such a gems. I’ll always be a fan.


M

MI Abbas

کسی ندی میں سالہا سال مشق کرنے والے تیراک کو اگر سمندر میں اتار دیا جائے تو اس پر سمندر کی تیز و تند موجوں، اس کے نمکین پانیوں، اور ان میں موجود حیاتیات سے آباد اک جہان کا تو اثر ہوگا ہی۔ لیکن جو چیز چشم زدن میں اس کے حواس منجمد کردینے، اعصاب معطل کردینے اور اسے اپنی بےوقعتی کا احساس دلادینے کیلئے کافی ہوگی وہ اس سمندر کی عظیم وسعت اور اسکی عمیق گہرائی ہوگی۔
کئی چاند تھے سر آسماں کو پڑھنے سے پیشتر میں بھی کسی ندی کا منجھا ہوا تیراک تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ لفظوں کا جال بن کر قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لینے والا ہر شخص ناول نگار بن سکتا ہے۔ لیکن اس ناول کو پڑھتے ہوئے مجھ میں اپنی کم مائیگی اور کم عقلی پر ماتم کرنے کی خواہش بیدار ہونے لگی۔ ابھی تو سفر نصف سے بھی کچھ زیادہ باقی ہے اور اس ناول نے مجھے اپنی عظیم وسعتوں میں سمو لیا ہے۔
الفاظ میرے ذہن و دل سے محو ہو چکے ہیں۔ میں ایک کورا کاغز بن کر رہ گیا ہوں۔ نہ میرا قلم میرے ساتھ ہے نہ میری روح۔ یہ ایک ناول نہیں بلکہ ایک عظیم الشان ماضی کی جیتی جاگتی تصویر ہے کہ جس کے کمال فن کے سحر سے نکل آنا بھی اک کمال ہی ہوگا۔ مجھ پر تو اس ساحر البیان شمس الرحمان فاروقی نے ایسا منتر پڑھ کر پھونک دیا ہے کہ میں اس ہی کی بسائی ہوئی دنیاوں میں کہیں گم ہو چکا ہوں۔
جب قافلہ چلا تھا تو میرے ساتھ چند بہت باذوق بکسٹاگرامر احباب بھی تھے۔ بظاہر تو اب بھی ہم اس سفر میں ساتھ ہی ہیں لیکن ہم سب اس کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو چکے ہیں۔ ہماری دلی کیفیات کی ترجمانی غالب کے اس شعر سے کی جاسکتی ہے کہ:
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
سفر ابھی جاری ہے سحر ابھی طاری ہے۔ فاروقی صاحب کی جادو بیانی کی مثال کیلئے بس ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں، پڑھئیے اور حظ اٹھائیے:
📚 اسے آج معلوم ہوا کہ پرستش سے شعرا کیا مطلب لیتے ہیں،
اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی انسانی وجود کو اس طرح چاہے جس طرح لوگ ساحل دریا پر چھٹکی ہوئی نارنجی روشنی میں نہاتے ہوئے آشیانوں کو واپس جاتے طیور کو چاہتے ہیں،
جس طرح لوگ آدھی رات کے بعد سنتور پر بجتی ہوئی بھیروی کو چاہتے ہیں،
جس طرح لوگ پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں پر گریبان سحرکی چاکی کے پس منظر میں آبشار کی آواز کو چاہتے ہیں،
جس طرح لوگ لمبے سفر کے بعد گھر کی چوکھٹ کو چاہتے ہیں،
جس طرح لوگ خوبصورت قالینوں، دلفریب تصویروں کو چاہتے ہیں کہ بس دیکھتے رہیے، سنتے رہیے۔
نہ کچھ غرض ہونہ کسی نتیجے کی توقع، نہ وقت کا احساس، نہ کسی کارنامے کا التباس۔


A

Arsalan Muzammil (Wazirabad)

گذشتہ دفعہ کتاب کئی چاند تھے سر آسمان منگوائی تو اس کے چند صفحات پرنٹنگ کی وجہ سے آگے پیچھے ھو گئے اور میں نے اس بات کی بک کارنر والوں سے شکایت کی تو انھوں نے فوری اس بات کا نوٹس لیکر مجھے ایک نئی بک روانہ کردی جوکہ مجھے آج ھی موصول ھوئی وصول کرکے بڑی خوشی ھوئی کیونکہ یہ بالکل مفت تھی اور اب میں بھی ایک دو روز تک ان کو پہلی والی بک واپس کردوں گا
شکریہ بک کارنر آپ اسی طرح ترقی کرتے رھیں


I

Ibn e Sabeel (Chaman)

اِس دَورِ "موبائلیت" میں ، کسی کتاب کو پڑھنا۔۔۔۔
اگرچہ کمال ہے۔۔۔۔ مگر محال ہے۔۔۔۔
کتاب بھی وہ جس کی ضخامت اور قیمت بے ہمت کر دے۔۔۔
تاہم۔۔۔
"کئی چاند تھے سرِ آسماں" کے باعث جہاں کئی چاند سرِ آسمانِ خیال اُبھرے ، وہاں اس شاہکار نے مسلم ہند کی تہذیبِ عجیب کے کئی پہلو بھی اُبھارے....
(اِبنِ سبیل )


M

MI Abbas

جزئیات نگاری، منظر نگاری، لطیف اور شیریں زبان، دلچسپ مکالمے، شاندار کردار، اس کتاب کا ہر ہر پہلو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔
یہ کتاب قاری کا ادبی ذوق اس قدر بلند کردیتی ہے کہ پھر مشکل ہے کوئی دوسری کتاب پسند آسکے۔


RELATED BOOKS