Famous Travelogues | 4 Books | Bundle Offer | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

FAMOUS TRAVELOGUES | 4 BOOKS | BUNDLE OFFER نادر تاریخی سفرنامے | 4 کتب | بنڈل آفر

FAMOUS TRAVELOGUES | 4 BOOKS | BUNDLE OFFER

PKR:   7,300/- 4,380/-

’’ان سے کہو زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘
(سورۃ الانعام آیت 11)

دنیا کے لازوال سفرنامے
صرف سفر نامے ہی نہیں بلکہ تاریخ کے خزانے بھی
نایاب تصاویر سے مزین

1- سفرنامہ ابن بطوطہ | مترجم: رئیس احمد جعفری
2- سفرنامہ ابن جبیر | مترجم: حافظ احمد علی خاں شوق
3- سفرنامہ ناصر خسرو | مترجم: محمد عبدالرزاق کانپوری
4- سفرنامہ یوسف خاں کمبل پوش | مرتبہ: ڈاکٹر مظہر احمد

سفرنامہ ابن بطوطہ | مختصر تعارف

دُنیا کی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی نہیں جس میں اس کتاب کا ترجمہ نہ ہوا ہو…مشرق اور ایشیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں اس منچلے سیّاح کے قدم نہ پہنچے ہوں … سر زمینِ مغرب کے بعض مقامات کی بھی ابن بطوطہ نے سیاحت کی اور پھر اپنے تاثرات و مشاہداتِ سفر، پوری سچائی، بے باکی اور جرأت کے ساتھ قلم بند کر دیے۔ سفرنامہ ابن بطوطہ کا سب سے معتبر، مستند اور رواں ترجمہ نامور مؤرخ اور صاحب طرز ادیب علامہ رئیس احمد جعفری نے کیا ہے۔ چوںکہ جعفری صاحب عربی و اُردو زبان و ادب میں یکساں دسترس رکھتے تھے، اس کے ساتھ ساتھ وہ تاریخ اور جغرافیہ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، لہٰذا ان کے ترجمہ کا شمار اُردو کے بہترین تراجم میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اس تاریخی دستاویز کو اُردو کے قالب میں ڈھالتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لیا اور مزیدبرآں انہوں نے متن کے بعض تفصیل طلب مقامات کی حواشی میں مختصر مگر جامع وضاحت بھی کر دی جس نے اس سفرنامے کی اہمیت کو چار چاند لگا دیے ۔ سفرنامہ ابن بطوطہ اس ادبی سلسلے کی ہی ایک زریں کڑی ہے۔ اس ترجمے پر قدامت کے کچھ اثرات بہرحال تھے، پروفیسر سَیْد امیر کھوکھر نے اصل عربی متن سے اس ترجمے کا مقابلہ و موازنہ کیا اور جہاں کہیں ترمیم و اضافہ کی ضرورت محسوس کی، کر دیا گیا۔ اس اشاعت کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ابن بطوطہ نے مختلف ممالک کے جن اہم مقامات کا مشاہدہ کیا اُن کا تصویری البم شروع میں لگا دیا گیا ہے جو یقینا قارئین کے لیے سفر نامہ کو دلچسپی سے پڑھنے اور سمجھنے میں از حد مفید ہو گا۔ یہ وہ خاصیت ہے جو ادارہ بک کارنر کی شائع شدہ کتابوں کی علمی، ادبی اور فنی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخی افادیت بڑھا دیتی ہے۔ خوش کن خبر یہ ہے دیگر نادر و کم یاب سفرناموں کی اشاعت کا یہ حسین سفر جاری رہے گا۔

سفرنامہ ابن جبیر | مختصر تعارف

اس کائناتِ رنگ و بُو میں قدرتِ خداوندی کی بے شمار نشانیاں موجود ہیں۔ صحرا و دریا ہوں یا کوہسار و لالہ زار، لہلہاتے کھیت ہوں یا چہچہاتے پرندے، مہکتے پھول ہوں یا تیرتے بادل، ہر ایک چیز حُسنِ فطرت کی نشان دہی اور غمّازی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنات میں بکھری ہوئی اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرنے کا حکم دیا ہے اور غوروفکر اور تدبر و تجسّس انسان کی سرشت میں شامل کر دیا ہے۔ اسی کی بنا پر انسان نئی سے نئی دریافتیں، بازیافتیں اور ایجادات کے دروازے کھولتا جا رہا ہے۔
سفر ہمیشہ سے طبعِ انسانی کا لازمہ رہا ہے۔ انفس و آفاق کے سفر ہی سے حقائق سے پردے اٹھتے ہیں اور خودشناسی کی منازل طے ہوتی ہیں۔ یوں تو ہر انسان سفر کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا؛ مگر دورانِ سفر دقّتِ نظر، قوتِ مشاہدہ اور تفکر و تدبر کو کام میں لاتے ہوئے اپنے مشاہدات کو دوسروں کے لیے عمدگی سے قلم بند کرنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں۔ محمدابن جبیر دُنیا کے اُن چند سیاحوں کی صفِ اوّل میں نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنی سیاحت میں ایک دُنیا کو شامل کر لیا ہے۔ یہ سفرنامہ کم و بیش آٹھ سو سال پہلے کا ہے۔ ابن جبیر کا تعلق غرناطہ (اندلس) سے تھا۔ یہ دراصل ان کا سفرنامہ حج ہے جو انہوں نے ذی الحج 578ھ میں شروع کیا اور صقلیہ، شام، مصر، فلسطین، عراق، لبنان اور حجاز مقدس کے مکمل احوال و آثار اور مشاہدات کو سمیٹتے ہوئے محرم 581ھ غرناطہ واپس پہنچنے پر مکمل کیا۔ اس سفرنامے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ دوسری صلیبی جنگوں کے زمانے کی مستند تاریخی دستاویز ہے۔ ابن جبیر جہاں جہاں سے گزرے؛ انہوں نے وہاں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مذہبی عقائدو نظریات اور رُسوم و رواج تک تفصیل سے بیان کر دیے ہیں۔ مزید برآں جس انداز و اسلوب میں یہ سفرنامہ لکھا گیا ہے، اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ ابن بطوطہ جیسے سیّاحِ عالم نے اپنے شہرہ آفاق سفرنامے میں متعدد جگہوں پر ’’سفرنامہ ابن جبیر‘‘ کو بہ طور حوالہ پیش کیا ہے۔ یہ سفرنامہ چوںکہ فصیح عربی زبان میں تھا۔ اس کے متعدد قلمی نسخے دُنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں اور تقریباً تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں لیکن اُردو قارئین اس کے معیاری ترجمے سے محروم تھے۔ آج سے تقریباً ایک صدی قبل حافظ احمدعلی خاں شوقؔ رامپوری نے اس کا نہایت عمدہ اور معیاری ترجمہ کیا تھا جو ہندوپاک میں زیورطبع سے آراستہ بھی ہوتا رہا ہے۔ حافظ احمدعلی خاں شوقؔ، مولانا شوکت علی جوؔہر اور مولانا محمدعلی جوؔہر کے تایازاد بھائی تھے۔ وہ عالم، فاضل اور ادیب تھے۔ ان کا ترجمہ اپنے دَور کی زبان و بیان کے تقاضوں کو پورا کرتا تھا۔ ادارہ بُک کارنر نے اسے ازسرِنو زندہ کرنے کا ارادہ کیا۔ چوںکہ اس ترجمے کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران اُردو زبان ارتقا کے کئی مراحل طے کر چکی ہے، بہت سے الفاظ متروک ہو چکے ہیں اور کتنے ہی نئے الفاظ و محاورات معرضِ استعمال میں آ چکے ہیں۔ لہٰذا اس کتاب کو زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ترجمے کی تسہیل و نظرثانی کی ضرورت بھی محسوس کی گئی، یہ مرحلہ ممتاز محقق، مترجم اور ادیب پروفیسر سَید امیر کھوکھر نے بہ طریقِ احسن طے کیا۔ عربی متن اور ترجمے کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں تسہیل اور نظرثانی کے بعد اب ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے۔ یوں یہ ترجمہ کافی حد تک سلیس، رواں اور دورِ جدید کی زبان و بیان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ امید ہے حسبِ معمول صاحبانِ ذوق اسے پسند کریں گے اور یہ کتاب اُن کی ضیافتِ طبع کا سامان بنے گی۔

سفرنامہ ناصر خسرو | مختصر تعارف

حکیم ناصر خسرو چوتھی صدی ہجری کا شاعر، ادیب، فلسفی، سیّاح اور دانش ور تھا۔ اس کا تعلق خراسان کے علاقے سے تھا۔ علم و ادب اور فلسفہ و حکمت کے میدان میں اس نے کئی کتب یادگار چھوڑی ہیں۔ علم وفضل، شعر و ادب، فکر و فن میں وہ شہرہ آفاق حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے افکار و نظریات اور عقائد کے بارے میں متعدد ومختلف آرا و خیالات ملتے ہیں۔ ایک مدتِ مدید تک تو اس کے احوال و آثار، گفتار و کردار اور سوانح و تذکار کو درخورِ اعتناہی نہیں سمجھا گیا۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مختلف مسالک و مذاہب کے لوگ اسے مسلک و مذہب کے میزان میں تولتے رہے اور جب اس کے آزادانہ خیالات ان کے میزانِ عقائد پر پورے نہ اُترتے تو وہ اس کے حالات کو جمع کرنے کااور اس پر حاشیہ آرائی سے بھی باز رہتے___ یہ سات سالہ سفرنامہ قارئین کو خراسان سے لے کر عراقِ عجم، آذربائیجان، آرمینیہ، شام، فلسطین اور عراقِ عجم کی سیر کراتا ہوا حرمین طیبین کی ارضِ پاک پر لے جاتا ہے۔ مقامات کی قدم بہ قدم رودادِ سفر حکیم نے بیان کر کے ایک تاریخ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ آج سے تقریباً ایک ہزار برس پہلے لکھے جانے والے اس سفر نامے کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں مبالغہ آمیزی سے پرہیز کیا گیا ہے۔ اس میں غیرمستند روایات و حکایات کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں کہیں حکیم نے کوئی ایسا قصہ بیان کیا گیا ہے جس کی تفصیلات کو وہ ذاتی طور قبول نہ کر سکے اور نہ ذاتی مشاہدہ کیا تو اس کی طرف اشارہ کر کے وضاحت کر دی کہ لوگوں میں ایسا مشہور تھا یعنی اپنی طرف سے ثقاہت کی سند نہیں دی۔ یہی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو اس سفرنامے کو اہلِ علم اور صاحبِ ذوق طبقے کی توجہ کا مرکز بناتی ہیں۔

سفرنامہ یوسف خاں کمبل پوش | مختصر تعارف

یوسف خاں کمبل پوش نے انگلستان کے سفر کا آغاز مارچ 1837ء میں کیا اور تقریباً آدھی دنیا کا سفر طے کرتا ہوا، انگلستان اور پیرس کی سیر سے لطف اندوز ہوتا ہوا ، مصر اور وسطی ہندوستان کے راستے لکھنؤ وارد ہوا۔ اس کا یہ سفر 1838ء کے آخری دنوں میں تمام ہوا ۔اس سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات اور سیاحتی مقامات کی تفصیلات، جغرافیائی حالات ، مختلف معاشروں کی تہذیب وسخاوت، طرزِ زندگی ، روز مرّہ، رسوم وعقائد ، رہن سہن، تاریخی عمارات اور واقعات کی تفصیلات پر بے لاگ تبصرے اور اظہارِ خیال کرتا ہوا، انہیں ضبط ِتحریر میں لاتا گیا ۔ اس سفرنامے کی اہمیت اور خوبی صرف یہ ہی نہیں ہے کہ یہ اردوکا پہلا سفر نامہ ہے بلکہ اس میں بیان کر وہ واقعات عجب حیرت زاہیں اور کمبل پوش ایک کامیاب و کامران سیاح کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ کمبل پوش کی بے ساختگی، صاف گوئی اور بے باکی نے اس سفر نامے کو خاص اہمیت کا حامل بنادیا ہے ۔ قاری کمبل پوش کی انگلی تھامے کشاں کشاں اس کے ساتھ سفر میں شریک ہوجاتا ہے اور کمبل پوش اسے ایسے دلچسپ ، قابل ذکر اور ناقابلِ فراموش مقامات کی سیر کراتا ہے کہ طویل عرصے تک اس کے ذہن سے یہ مرقعے محونہیں ہوتے ۔ اس کی جزئیات نگاری ،مرقع سازی اور منظر نگاری اس سفر نامے کوخاصے کی چیز بنا دیتے ہیں۔ اس کی مشاہدات انوکھے اور دلچسپ ہیں۔ واقعات کے بیان میں حیرت انگیز ی کا عنصرنمایاں ہے اور مناظر اپنے تمام ترحسن کے ساتھ دلچسپی کے باعث ہیں۔ تحسین فراقی کمبل پوش کے سفرنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نہ صرف یہ کہ اس نے لندن کے قابلِ دید مقامات ،اس کے مضافات ، وہاں کے رہن سہن ، کھیل تماشوں ، وہاں کے لوگوں کی علم دوستی، وہاں کے عجائبات ونوادرات وہاں کی تاریخی عمارات ، وہاں کے رسم ورواج اور تہذیب ومعاشرت کے دلچسپ مرقعے پیش کیے۔ بلکہ وہاں تک پہنچنے کے دوران اس نے جن مقامات ومناظر کو دیکھا ان کی بھی دلچسپ تصویر کشی کی ہے۔‘‘

RELATED BOOKS